اگرآپ ﷺ تمہاری بات مان لیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
وَ اعۡلَمُوۡۤا  اَنَّ  فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ؕ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ  اِلَیۡکُمُ  الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ  فِیۡ  قُلُوۡبِکُمۡ وَ کَرَّہَ  اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَ الۡفُسُوۡقَ وَ الۡعِصۡیَانَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ  الرّٰشِدُوۡنَ ۙ﴿۷﴾

ترجمہ:
اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول موجود ہیں۔ بہت سی باتیں ہیں جن میں وہ اگر تمہاری بات مان لیں تو خود تم مشکل میں پڑجاؤ۔ لیکن اللہ نے تمہارے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے، اور اسے تمہارے دلوں میں پرکشش بنا دیا ہے، اور تمہارے اندر کفر کی اور گناہوں اور نافرمانی کی نفرت بٹھا دی ہے۔ *ایسے ہی لوگ ہیں جو ٹھیک ٹھیک راستے پر آچکے ہیں۔


تفسیر:
*سورت کے شروع میں جو حکم دیا گیا تھا، اور جس کی تشریح اوپر حاشیہ نمبر 1 میں گذری ہے، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ صحابہ کرام کبھی کوئی رائے ہی پیش نہ کریں، بلکہ رائے قائم کر کے اس پر اصرار سے منع فرمایا گیا تھا، اب یہ فرمایا جا رہا ہے کہ مناسب موقع پر کوئی رائے دینے میں تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیه وسلم کے لیے ضروری نہیں ہے کہ تمہاری ہر رائے پر عمل ضرور کریں، بلکہ آپ مصلحت کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے، اور اگر وہ تمہاری رائے کے خلاف ہو، تب بھی تمہیں اس پر راضی رہنا چاہیے، کیونکہ تمہاری ہر بات پر عمل کرنے سے خود تمہیں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، جیسا کہ حضرت ولید بن عقبہ کے واقعے میں ہوا کہ وہ تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ بنو مصطلق لڑائی پر آمادہ ہیں، اس لیے ان کی رائے تو یہی ہوگی کہ ان سے جہاد کیا جائے، لیکن اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی رائے پر عمل کرتے تو خود مسلمانوں کو نقصان پہنچتا۔ چنانچہ آگے اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے، اس لیے وہ اطاعت کے اسی اصول پر عمل کرتے ہیں۔
آسان ترجمعہ قرآن (مفتی تقی عثمانی مدظلہ)

1 comment:

Powered by Blogger.