سورۃ الحجرات آیت نمبر 1
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱﴾
ترجمہ:
اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھا کرو۔ (١) اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ یقینا سب کچھ سنتا، سب کچھ جانتا ہے۔
تفسیر:
: سورت کی یہ ابتدائی پانچ آیتیں ایک خاص موقع پر نازل ہوئی تھیں، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس عرب کے قبائل کے بہت سے وفد آتے رہتے تھے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے کسی کو آئندہ کے لئے قبیلے کا امیر مقرر فرما دیتے تھے، ایک مرتبہ قبیلہ تمیم کا ایک وفد آپ کی خدمت میں آیا، ابھی آپ نے ان میں سے کسی کو امیر نہیں بنایا تھا، اور نہ اس سلسلے میں کوئی بات کی تھی، لیکن آپ کی موجودگی میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) نے یہ مشورہ شروع کردیا کہ ان میں سے کس کو امیر بنایا جائے، حضرت ابوبکر نے ایک نام لیا اور حضرت عمر نے دوسرا، پھر ان دونوں بزرگوں نے اپنی اپنی رائے کی تائید اس طرح شروع کردی کہ کچھ بحث کا سا انداز پیدا ہوگیا، اور اس میں دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں، اس پر پہلی تین آیتیں نازل ہوئیں، پہلی آیت میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جن معاملات کا فیصلہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کرنا ہو اور آپ نے ان کے بارے میں کوئی مشورہ بھی طلب نہ فرمایا ہو ان معاملات میں آپ سے پہلے ہی کوئی رائے قائم کرلینا اور اس پر اصرار یا بحث کرنا آپ کے ادب کے خلاف ہے، اگرچہ یہ پہلی آیت اس خاص واقعے میں نازل ہوئی تھی لیکن الفاظ عام استعمال فرمائے گئے ہیں تاکہ یہ اصولی ہدایت دی جائے کہ کسی بھی معاملے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے بڑھنا مسلمانوں کے لئے درست نہیں ہے، اس میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلنا ہو تو آپ سے آگے نہ بڑھنا چاہیے، نیز آپ نے زندگی کے مختلف شعبوں میں جو حدود مقرر فرمائے ہیں ان سے آگے نکلنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، اس کے بعد دوسری اور تیسری آیتوں میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ آپ کی مجلس میں بیٹھ کر اپنی آواز آپ کی آواز سے بلند نہیں کرنی چاہیے، اور آپ سے کوئی بات کہنی ہو تو وہ بھی بلند آواز سے نہیں کہنی چاہیے ؛ بلکہ آپ کی مجلس میں آواز پست رکھنے کا اہتمام ضروری ہے۔
No comments: