دارالاسلام میں مندر اور کنیسہ کی تعمیر کی شرعی حیثیت؟؟

اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کی اجازت اور حکومت کی طرف سے زمین دینے کے بارے میں جامعہ بنوری ٹآؤن کا فتویٰ:




حکومت کے اسلام آباد میں مندر بنانے کی اجازت دینے پر اکثریت کا یہ رد عمل ہے کہ کیا اسلام میں اقلیتیوں کے حقوق نہیں ہیں ؟
اس ضمن میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتوای ملاحظہ فرمائیں۔

جامعہ بنوری ٹاؤن کا فتویٰ:

سوال:
کیا دار الاسلام میں مندر و کنیسہ بنانا درست ہے؟  مدلل جواب عنایت فرمادیں!

جواب:
صورتِ  مسئولہ میں مندر و کنیسہ کی تعمیر کے سلسلہ میں فقہاء کی تحریرات کا خلاصہ یہ ہے کہ دار الاسلام میں تین قسم کے علاقے ہوتے ہیں:

1- ایک وہ شہر جسے مسلمانوں  ہی نےآباد کیا ہو، اس لیے وہاں مسلمان ہی قیام پذیر ہوئےہیں، وہاں غیرمسلموں کوعبادت گاہیں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

2- دوسرے جو علاقے مسلمانوں نے بزورِ طاقت فتح کیے ہوں اور وہ مسلمانوں میں تقسیم ہوگئے ہوں، اب وہ مسلمانوں ہی کا شہر بن گیا ہو، وہاں بھی غیر مسلموں کو نئی عبادت گاہیں تعمیر کرنا ممنوع ہوگا، لیکن اگر وہاں غیر مسلموں کی کافی آبادی ہوجائے اور ان کو وہاں کی شہریت (ذمہ)حاصل ہوجائے، تو پھر انہیں نئی عبادت گاہ بنانے سے روکا نہیں جائے گا۔

3- تیسرے وہ علاقے جو صلح کے ذریعے حاصل ہوئے ہوں،اور معاہدے کے تحت و  ہاں کی اراضی کو  قدیم آبادی کی ملکیت تسلیم  کیا گیا ہو۔ وہاں انہیں نئی عبادت گاہیں بنانے کا حق حاصل ہوگا۔نیز جو عبادت گاہیں پہلے سے موجود ہوں وہ نہ صرف باقی رہیں گی، بلکہ اگر وہ گرجائیں یا مرمت طلب ہوجائیں تو ان کے لیے دوبارہ ان کی تعمیر بھی جائز ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے :

"في الفتح: قيل: الأمصار ثلاثة: ما مصره المسلمون، كالكوفة والبصرة وبغداد وواسط، ولايجوز فيه إحداث ذلك إجماعاً، وما فتحه المسلمون عنوةً فهو كذلك، وما فتحوه صلحاً، فإن وقع على أن الأرض لهم جاز الإحداث، وإلا فلا إلا إذا شرطوا الإحداث اهـ ملخصاً". (4/203)

وفیہ ایضاً:

"فقد صرح في السیر  بأنه لو ظهر علی أرضهم وجعلهم ذمةً لایمنعون من إحداث کنیسةٍ؛ لأن المنع مختص بأمصار المسلمین  التي تقام فیها الجمع والحدود، فلو صارت مصراً للمسلمین منعوا من الإحداث". (ج:۴،ص:۲۰۳) فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144008200381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی

اس میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ایسا شہر جہاں پرانے زمانہ کے مندر موجود ہوں یا ایسا شہر جو ہندووں کا تھا لیکن مسلمانوں نے اس پر قبضہ کیا اور اب وہاں ہندو کافی تعداد میں موجود ہیں وہاں مندر بنائے جا سکتے ہیں اور پرانے مندروں کو بھی قائم رکھا جا سکتا ہے

جبکہ ایسا شہر جس کو بنایا اور آباد دونوں مسلمانوں نے ہی کیا ہو وہاں مندر نہی بنایا جا سکتا اور اسلام آباد تو 1960 میں پاکستانی حکومت نے خود بنایا اور آباد کیا ہے جبکہ پہلے یہاں پر جنگل تھا ۔ یہاں پر مندر کی تعمیر اسلامی اصولوں کے بالکل خلاف ہے ۔

جبکہ دوسرا اسلامی اصول یہ ہے کہ اسلامی حکومت کبھی بھی کسی مندر ، گردوارہ یا کنیسہ کی زمین یا تعمیر کے لیے مدد نہی کر سکتی کیونکہ ملک میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور ٹیکس کا پیسہ مسلمانوں کا ہے جو مندر کی تعمیر پر خرچ نہی کیا جا سکتا ۔ جہاں پر بھی کسی عبادت گاہ کی تعمیر ہوگی تو اس مذہب کے ماننے والے اس کی زمین اور تعمیر کا خرچہ خود اٹھائیں گے ۔


No comments:

Powered by Blogger.